اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
میرتقی میرّ
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کوچھٹی نہ ملی جسے سبق یاد ہوا
میر طاہر علی راضوی
کوئی سمجھےتوایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
فراق گورکھپوری
کوچہّ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
جگرؔمراد آبادی
کچھ کھیل نہیں ہے عشق کرنا
یہ زندگی بھر کا رت جگا ہے
احمد ندیمؔ قاسمی
عشق ہے عشق کو ئی مزاق نہیں
چند لمحوں میں فیصلہ نہ کر و
سد رشن فکر
عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
مرزا غالبؔ
عشق نازک مزاج ہے بہت
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
آکبر الہ آبادی
ایک تبصرہ شائع کریں